کانگریس کے سینئر لیڈر اور مشہور وکیل کپِل سبل نے تین طلاق معاملے پر
سپریم کورٹ میں جاری سماعت پر آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ(اے آئی ایم پی
ایل بی) کا موقف رکھتے ہوئے کہا کہ مسلمان گزشتہ 1400برسوں سے اس پر عمل
کررہے ہیں اور یہ ان کے عقیدے سے وابستہ معاملہ ہے۔اسے غیر قانونی کیسے کہا
جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس جے ایس کیہر کی پانچ رکنی بنچ کے سامنے آج بورڈ کی
طرف سے دلیل پیش کرتے ہوئے مسٹر سبل نے کہا تین طلاق مسلمانوں کے
عقیدے سے وابستہ مسئلہ ہے جوگزشتہ 1400برسوں سے اس پر عمل کررہے ہیں ، پھر
اسے غیر قانونی کیسے کہا جاسکتا ہے۔ بنچ 11مئی سے تین طلاق کے مسئلہ
پر روزانہ سماعت کررہی ہے۔ آج سماعت کا چوتھا دن تھا۔ کل سماعت کے دوران
حکومت کی طرف سے دلیل پیش کرتے ہوئے اٹارنی جنرل مکل روہتگی نے کہا تھا کہ
اگر سپریم کورٹ تین طلاق کو غیر قانونی قرار دیتا ہے تو حکومت شادی اور
طلاق کے ضابطے کےلئے قانون بنانے کو تیار ہے۔
مسٹر سبل نے تین طلاق کو نہ صرف مسلمانوں کے عقیدے اور ایمان سے وابستہ
معاملہ بتایا بلکہ اس کا موازنہ بھگوان رام کے ایودھیا میں پیدا ہونے سے
بھی کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر بھگوان رام کے ایودھیا میں پیدا ہونے کے
سلسلے میں ہندوؤں کے عقیدے پر
سوال نہیں اٹھایا جا سکتا تو تین طلاق پر
ایسا کیوں۔ مرکزی حکومت کے تین طلاق کو غیر قانونی قرار دئے جانے پر نیا
قانون لانے کے بیان پر بھی مسٹر سبل نے سوال اٹھائے۔ سینئر وکیل نے اپنی
دلیلوں میں یہ بھی کہا کہ اگر نکاح اور طلاق دونوں ایک معاہدہ ہیں تو
دوسروں کو اس سے دقت کیوں ہونی چاہیے۔ ان کی دلیل تھی کہ جب اس پر
1400برسوں سے عمل کیا جارہا ہے تو اب اس سے کیسی پریشانی ہے۔
گزشتہ ہفتے ہوئی سماعت کے دوران کانگریس کے سینئرلیڈر اور سابق وزیرقانون
سلمان خورشید نے کہا تھا کہ بورڈ کی نظر میں طلاق ایک ناپسندیدہ لیکن جائز
معاملہ ہے۔ سینئر ایڈووکیٹ اور سابق قانون وزیر رام جیٹھ ملانی نے بھی طلاق
کو قانون کے آرٹیکل 14میں فراہم کردہ مساوات کے حقوق کی خلاف ورزی قرار
دیا تھا۔ مسٹر جیٹھ ملانی نے کہا تھا کہ قانون کے آرٹیکل 14اور 15سبھی
شہریوں کو برابری کا حق دیتے ہیں اور ان کی روشنی میں طلاق غیر قانونی ہے۔
انہوں نے دعوی کیا کہ وہ باقی مذاہب کی طرح اسلام کے بھی طالب علم ہیں۔
انہوں نے حضرت محمد کو خدا کے عظیم ترین پیغمبروں میں سے ایک بتایا اور کہا
کہ ان کا پیغام قابل تعریف ہے۔ سابق وزیرقانون نے کہا کہ خواتین سے صرف ان
کی جنس کی بنیاد پر امتیازی سلوک نہیں کیا جاسکتا۔